بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ حج کی 65 سے 72 کی آٹھ آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی تشریح کرتے ہوئے، حق کے دشمنوں کے انجام کو بیان اور دشمنوں کی حقیقت کو عیاں اور ان سے نمٹنے کے طریقوں کا واضح خاکہ پیش کرتا ہے۔
آیات کریمہ کا یہ حصہ دونوں دنیا کے انتظام اور تدبیر میں اللہ کی طاقت کو آشکار کرتا ہے اور حق کے دشمنوں کی ضد، ہٹ دھرمی اور ہوسناکی [اکتسابیت Acquisitiveness) کے رجحان کو بھی عیاں کرتا ہے۔ اس روداد میں ان آیات کے سب سے اہم تفسیری نکات کا ـ دشمن شناسی کے تصور پر زور دیتے ہوئے، ـ جائزہ لیا گیا ہے۔
خدائی طاقت اور دشمن کی دھمکیوں کا بے بنیاد پن
آیات کا آغاز اللہ کی سلامتی فراہم کرنے والی نعمتوں سے ہوتا ہے: وہی ہے جو آسمان کو زمین پر گرنے سے روکتا ہے اور کائنات کے نظام کو ترتیب اور توازن میں رکھتا ہے۔ ایسی طاقت کی یادآوری اس حقیقت کے ادراک کی تمہید ہے کہ حق کے دشمنوں کی دھمکیاں اللہ کے ارادے کو کبھی بھی متزلزل نہیں کر سکتیں۔
دشمن مؤمنوں کو ڈرانے کے لئے جتنی بھی ماحول سازی کریں، وہ اللہ کی قدرت مطلقہ کے مقابلے میں بے اثر اور بے بس ہیں۔ یہ دشمن شناسی میں یہ ایک اہم نکتہ ہے: دشمن اس وقت بہت طاقتور لگتا ہے جب جب انسان طاقت کے اصل سرچشمے [اللہ کی ذات] سے غافل ہوجاتا ہے۔
ارشاد و ہدایت کا خطاب مؤمنوں سے اور وعید و تہدید دشمنوں کو
اگلی آیات میں مؤمنین اور حق کے دشمنوں ـ کے دو گروہوں ـ کے درمیان فرق کو واضح الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مؤمنوں کو شکر گزاری، زیادہ سے زیادہ ایمان اور حقائق پر قائم رہنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ لیکن حق کے دشمنوں کو سخت تنبیہات اور دھمکیاں ملتی ہیں۔
اس تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن شناسی، قرآن کے نقطہ نظر سے، محض ایک سیاسی تجزیہ نہیں ہے، بلکہ ایک کرداری اور روحانی شناخت ہے: یہ کہ، لوگوں کا ایک گروہ الٰہی نعمتوں اور نشانیوں کی روشنی میں پروان چڑھتا ہے، جب کہ دوسرا گروہ انہی نشانیوں کو تکذیب و انکار کی دستاویز بنا دیتا ہے۔
دشمن کی ہٹ دھرمی، نشانیاں دیکھ کر بھی حق کا انکار
اگلی آیت حق کے دشمنوں کی ایک اہم ترین خصوصیت کو عیاں کرتی ہے: "ضد" (ہٹ دھرمی)۔ وہ ایسا برتاؤ کرتے ہیں کہ گویا نہ تو انہیں آفاق کی آیات اور نشانیاں دکھائی دی ہیں اور نہ ہی وہ تاریخی شواہد دیکھ سکے ہیں؛ گوکہ وہ دل ہی دل میں جانتے ہیں کہ کہ حق کیا ہے اور یہ بھی کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں؛ لیکن پھر بھی نہیں مانتے اور انکار کرتے ہیں؛ چنانچہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے انکار کی وجہ جہل اور ناسمجھی نہیں ہے بلکہ ہٹ دھرمی اور عناد (یعنی جاہلیت) ہے اور وہ اپنے سامراجی مفادات اور مستکبرانہ رجحانات کی بنا پر، ان کا منہ صرف انکار پر کھلتا ہے۔
یہ گہری وضاحت ہر دور میں، دشمنوں کی نوعیت و حقیقت کو عیاں کرتی ہے، یعنی یہ کہ: ان کی دشمنی جہالت سے زیادہ ضد اور عناد کی وجہ سے ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کہ کیا کر رہے ہیں لیکن حق و سچ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
بغیر علم کے جدال کرنا؛ دشمن کا مستقل ہتھیار
اللہ ان آیات میں دشمنوں کے اہم ہتھیاروں میں سے ایک کو منظر عام پر لاتا ہے: "علم و دانش کے بغیر جدال و تکرار": وہ حق کو برباد اور اہل ایمان کو کمزور کرنے کے لئے میدان میں اترتے ہیں؛ لیکن دلیل و برہان کے بغیر، وہ تو بس شور و غل مچانا اور دوسروں کو خاموش کرانا اور حقائق میں تحریف، جَعل سازی، اور فریب کاری اور بے بنیاد زبانی دلائل سے چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل آج بھی میڈیا میں بیانیوں کی جنگ، حقائق کو مسخ کرنے اور تشہیراتی رویوں کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ بحث و جدل کا یہ طریقہ حق اور سچ پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ جنگجویانہ اور مفسدانہ جذبے اور نفسانی خواہشات پر استوار ہے۔
حق و باطل کے درمیان فیصلہ آخر کار، اللہ کو کرنا ہے
اس کے بعد آیات تاکید کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ بالآخر اہل حق اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ یہ خدائی وعدہ اس اصول کا اظہار کرتا ہے کہ دشمن چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، نتیجہ آخرکار حق و صداقت کے حق میں ہوگا۔ ممکن ہے کہ یہ فیصلہ دنیا میں ہو یا آخرت میں، لیکن آخری انجام طے شدہ اور قطعی ہے۔ یہ نکتہ مؤمنین کے لئے ایک اہم پیغام کا حامل ہے: انہیں دشمن کے شور و غل سے یا اس کے پروپیگنڈے اور دباؤ کی شدت سے گھبرانا نہیں چاہئے اور تزلزل کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
دشمنوں کا غرور اور مستقبل سے غفلت
ان آیات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ دشمنوں کے زوال کا باعث بننے والے عوامل میں سے ایک کا تعارف کراتا ہے: " تکبر"۔ وہ اپنی ظاہری شکل و صورت، اپنی صلاحیتوں یا اپنی عوامی مقبولیت اور ابلاغیاتی حمایت پر مغرور ہو جاتے ہیں اور یہی غرور انہیں ان کے پیشروؤں کے انجام سے سبق حاصل نہیں کرنے دیتا۔
قرآن واضح طور پر فرماتا ہے کہ جب عذاب آئے گا تو ان کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا؛ جس طرح کہ تاریخ کی باغی طاقتیں اور سرکش قوتیں، ظاہری طاقت کے عروج پر زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہو گئیں۔
سورہ حج کی آیات 65-72 دشمنان حق کی ایک جامع تصویر پیش کرتی ہیں: دشمن جو ضدی اور ہٹ دھرم ہیں، علم و دانش کے بغیر، نزاع و جدال کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں، حق کو جانتے ہوئے بھی جھٹلاتے ہیں، مغرور و متکبر ہیں، اور دھمکیوں اور تخریب کاریوں کے ساتھ، اہل ایمان کے خلاف جنگ کے لئے آتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں، قرآن ہمیں خدا کی قدرت کی یاد دہانی کراتا ہے، مؤمنوں کو سکون و استقامت اور دشمنوں کی حقیقت کے گہرے ادراک کی دعوت دیتا ہے۔ یہ آیات بتاتی ہیں کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں چوکس اور بیدار و ہوشیار رہنے، خدا کے وعدوں پر امید کامل رکھنے، اور دشمن کے منفعلانہ رویوں یا تشہیری اقدامات کے حوالے سے گہری سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔
مذکورہ آیات کی تلاوت قرآن کریم کے صفحہ 340 پر دیکھیں اور سنیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مہدی احمدی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ